'گدھا اور ہاتھی' طاقتور ملک امریکہ کی پہچان کیسے بنے؟

Hero Image

واشنگٹن: امریکہ کے صدارتی الیکشن میں صرف چار روز باقی رہ گئے ہیں وائٹ ہاؤس پر کون براجمان ہوگا اس بار بھی گدھا جیتے گا یا ہاتھی بازی مارے گا دنیا کی نظریں لگ گئیں۔دنیا بھر کی نظریں امریکی صدارتی انتخابات پر جمی ہیں جو منگل 5 نومبر کو ہوں گے ۔ قبل از پولنگ لاکھوں امریکی ووٹر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرچکے ہیں لیکن اصل میدان جنگ 5 نومبر کو سجے گا جہاں سوئنگ ریاستیں جیتنے کے لیے دونوں حریف امیدوار ٹرمپ اور کملا ہیریس کی نظریں ہیں۔امریکہ میں دو جماعتی نظام نافذ ہے اور صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹ کا انتخابی نشان ہمیشہ گدھا اور ری پبلکن کا انتخابی نشان ہاتھی ہوتا ہے ۔ دونوں جماعتوں کے یہ انتخابی نشان کیسے بنے ؟ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے ۔دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی دو بڑی جماعتیں ریپلکن اور ڈیموکریٹ کی پہچان گدھا اور ہاتھی ہے اور یہی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔1828 میں صدارتی امیدوار اینڈریو جیکسن کو مخالفین نے گدھا اور احمق کا لقب دیا۔ جیکسن نے نہ صرف اس لقب کو خوش دلی سے قبول کیا، بلکہ اپنے انتخابی پوسٹروں میں گدھے کی تصویر شامل کرلی۔ یوں گدھا ڈیموکریٹ پارٹی کا نشان بن گیا۔ہاتھی کی کہانی قدرے مختلف ہے ۔ ابراہم لنکن جب پہلے ری پبلیکن صدر کے طور پر کامیاب ہوئے ، تو اسی دور میں ہاتھی ایک کارٹون کے ذریعے ری پبلیکن کی علامت کے طور پر سامنے آیا۔امریکہ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے ، تو صدور کی تعداد کے لحاظ سے ریپبلکن کا پلڑا بھاری ہے ۔ اب تک ریپبلکن کے 18 اور ڈیموکریٹ کے 16 صدور اقتدار سنبھال چکے ہیں۔اس صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیریس گدھے کے قدیم انتخابی نشان اور ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ہاتھی کے نشان کے ساتھ اپنی پیشگی فتوحات کے دعوے کر رہے ہیں لیکن جیت کس کی ہوگی۔ اس کیلئے صرف چار روز کا انتظار باقی ہے۔